مرد کے مسائل قسط نمبر 2

 مرد کے مسائل 

قسط نمبر 2 

تحریر : پروفیسر نور مسعود 

مرد کے مسائل


     مرد بچپن سے لیکر تادم مرگ مسائل کا شکار ہوکر بھی اس لیبل کیساتھ زندہ رہتا ہے کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے اور اسمیں جنسِ مخالف محکوم ومظلوم ہے مگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو مرد جن مسائل کا شکار ہے ان مسائل کا ذکر ہی مرد کے منہ سے ہونا بذاتِ خود مسئلہ ہے۔

     کیونکہ ہم نے یہ فرض کرلیا ہے کہ مرد ایک مضبوط اعصاب اور بے حس مخلوق ہے لڑکپن میں قدم رکھتے ہی اس کیلیے مسائل کا آغاز شروع ہوجاتا ہے جب فطری تقاضوں سے مجبور ہوکر وہ اپنی بہت سی باتوں کو لیکر ذہنی الجھن کا شکار ہوتا ہے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں بہت سے احساس اس کیلیے نئے ہوتے ہیں مگر مناسب رہنمائی کیلیے کوئی فرد دستیاب نہیں ہوتا کیونکہ والدین بچے کو تابع فرمان، نیک اور فرشتہ صفت اولاد کے خواب سے جاگ کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچے کے فطری تقاضوں کو سمجھنے کیلیے تیار ہی نہیں ہوتے۔

     دوران تعلیم جنسِ مخالف کی طرف رجحان ہوجانے کی صورت میں اس کا اپنی پسند کا گھروالوں سے اظہارِ معیوب سمجھا جاتا ہے نافرمانی تصور کیا جاتا ہے اور اسے تعلیم کے بعد نوکری کے حصول کیلیے خجل خوار ہونا پڑتا ہے کیرئیر بنانے کیلیے ذہنی کرب سے گزرنا پڑتا جبکہ عورت کی تعلیم مکمل ہوتے ہی اسکی شادی کی فکر لاحق ہوتی ہے مگر مرد کے معاملے میں سوچ بالکل اسکے برعکس ہوتی ہے نوکری کیلیے ڈگری واسناد کو لیکر دھکے کھانا اور گھر والوں سے جیب خرچ کا تقاضہ کرنا بہت سے نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔

     شادی کیلیے اپنی پسند کی شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور ماں باپ کی پسند کی شادی کرنے پہ فخر محسوس کرتے ہیں شادی کرنے سے پہلے ہی مرد کو ٹرینڈ کیا جاتا ہے اسکی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ بیوی کے کہنے کے مطابق زندگی بسر نہیں کریگا یوں مرد کی ازدواجی زندگی منافقت کا شکار ہوکر بے رنگ و بے کیف ہوجاتی ہے۔

 جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

تبصرے

  1. حقیقت کو الفاظ کے موتی بنا کر جس انداز میں اپنے یہ مالا بنائی ہے اس پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔اگلی قسط کا شدت سے انتظار ہے ❤

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں