اشاعتیں

مرد کے مسائل لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مرد کے مسائل قسط نمبر 4

تصویر
 مرد کے مسائل  قسط نمبر 4  تحریر : پروفیسر نور مسعود والدین کی بچوں پہ خاص طور پہ لڑکوں پہ بے اعتمادی بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اگر وہ نوکری سے مایوس ہوکر کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو گھر والے اس ڈر سے کہ رقم نہ ڈوب جائے انہیں سپورٹ نہیں کرتے جس سے نوکری کی تلاش میں معاشی طور پر کمزور بچے احساسِ کمتری کا شکار ہوکر خود اعتمادی کھو دیتے ہیں جو آگے چل کر انکی شخصیت پہ اثرانداز ہوتی ہے۔  مزید دیکھیں:  مزاحیہ مضامین جنس مخالف میں کشش فطری تقاضہ ہے اگر دورانِ تعلیم کوئی لڑکی پسند آجائے تو گھر والوں سے اس سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار ناقابلِ معافی جرم خیال کیا جاتا ہے اگر لڑکا گھر میں بڑا ہے چار بہنوں کا بھائی ہے تو آس پڑوس رشتے دار سب یہی راگ الاپتے ہیں کہ پہلے بیٹیوں کی شادی کرنا بعد میں لڑکے ہاتھ نہیں آتے بہو کے آنے سے پہلے ہی جو ملے گا سوملے گا اس کا نقصان شادی میں تاخیر تو ہے ہی ساتھ میں لڑکے کی ہمسفر جسے خود دیکھ بھال چھان پھٹک کر لایا جاتا ہے اس سے مفت کا بیر پال لیا جاتا ہے۔ مزید دیکھیں:  سنجیدہ مضامین یہاں اگر مرد گھر کا بڑا بیٹا ہے تو اسے باقی بچوں کیلیے رول ماڈل بنانے کے چکر

مرد کے مسائل قسط نمبر 3

تصویر
 مرد کے مسائل  قسط نمبر 3 تحریر : پروفیسر نور مسعود صاحبہ        ہر انسان مختلف صلاحیتوں کیساتھ پیدا ہوتا ہے اور بشری نقائص ہر کسی میں پائے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں والدین میں اپنے بچوں کو ڈاکٹر انجنئیر بنانے کا خبط سوار ہے سب والدین بچے کو خاص طور پر میل یعنی مرد بچے کو ڈاکٹر انجنیئر بنانا چاہتے ہیں اسکی صلاحیت جانے بغیر اسکی ذہنی سطح کو قبول کیے بغیر اسے مجبور کرتے ہیں نتیجے میں ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے بچہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے والدین کا پیسوں کے زیاں کی باتیں سن کر اسے لگتا ہے کہ شاید وہی مجرم ہے حالانکہ یہ ظلم سراسر والدین بچے کیساتھ کرتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیت کیمطابق کیرئیر کا انتخاب کرکے کامیابی پانے کی۔بجائے ناکامی  یاکر اپنا اعتماد کھو دیتا ہے بچے کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔  یہ سلسلہ بھی دیکھیں :  مزاحیہ مضامین تعلیمی چیلنجز کیساتھ ساتھ مرد کو فطری تقاضوں کو دبانے اور اسکا اظہار نہ کرنے کا بھی پابند رہنا پڑتا ہے والدین فی زمانہ بچوں میں فرشتہ صفتی پیدا کرنے کے چکر میں باغی کردیتے ہیں اور جو بچے بغاوت نہیں کرپاتے وہ ذہنی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں        تعلیمی

مرد کے مسائل قسط نمبر 2

تصویر
 مرد کے مسائل  قسط نمبر 2  تحریر : پروفیسر نور مسعود       مرد بچپن سے لیکر تادم مرگ مسائل کا شکار ہوکر بھی اس لیبل کیساتھ زندہ رہتا ہے کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے اور اسمیں جنسِ مخالف محکوم ومظلوم ہے مگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو مرد جن مسائل کا شکار ہے ان مسائل کا ذکر ہی مرد کے منہ سے ہونا بذاتِ خود مسئلہ ہے۔      کیونکہ ہم نے یہ فرض کرلیا ہے کہ مرد ایک مضبوط اعصاب اور بے حس مخلوق ہے لڑکپن میں قدم رکھتے ہی اس کیلیے مسائل کا آغاز شروع ہوجاتا ہے جب فطری تقاضوں سے مجبور ہوکر وہ اپنی بہت سی باتوں کو لیکر ذہنی الجھن کا شکار ہوتا ہے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں بہت سے احساس اس کیلیے نئے ہوتے ہیں مگر مناسب رہنمائی کیلیے کوئی فرد دستیاب نہیں ہوتا کیونکہ والدین بچے کو تابع فرمان، نیک اور فرشتہ صفت اولاد کے خواب سے جاگ کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچے کے فطری تقاضوں کو سمجھنے کیلیے تیار ہی نہیں ہوتے۔      دوران تعلیم جنسِ مخالف کی طرف رجحان ہوجانے کی صورت میں اس کا اپنی پسند کا گھروالوں سے اظہارِ معیوب سمجھا جاتا ہے نافرمانی تصور کیا جاتا ہے اور اسے تعلیم کے بعد نوکری کے حصول کیلیے خجل خوار

مرد کے مسائل قسط نمبر 1

تصویر
 مرد کے مسائل  قسط نمبر 1 تحریر: پروفیسر نور مسعود صاحبہ        یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے یہ ڈھنڈورا اس شد و مد سے پیٹا گیا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے مرد ہی سیاہ سفید کا مالک ہے اور اس کو مسائل کا سامنا صفر برابر ہے مگر حقیقت اسکے برعکس ہے       جس طرح حکومت اپنے مسائل عوام کے سامنے نہیں لاتی تاکہ اسکی ساکھ خراب نہ ہو اسی طرح مرد بھی اپنی خامیوں کمزوریوں اور مسائل کو چھپائے رکھتے ہیں  یہ سلسلہ بھی دیکھیں:  مزاحیہ مضامین      مرد چونکہ عورتوں کیطرح رو دھو کر آنسو بہا کر اپنی مظلومیت اور دکھ کو ظاہر نہیں کرتا تو یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ اسے کسی مسئلے کا سامنا ہی نہیں ہے       مرد کے مسائل بھی پیچیدہ اور سنجیدہ ہیں  جن کے حل کیطرف توجہ اور اسکے حل کیلیے کوشش کی ازحد ضرورت ہے       کسی بھی گھر میں کسی بچے کا پیدا ہونا گویا ایک ذمہ دار فرد کا ہونا جانا جاتا ہے مرد بچہ گویا ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا اور کفیل سمجھا جاتا ہے وہ اکلوتا ہوتو پھر تو اسکی معاشرتی سرگرمیاں محدود کرکے اس میں فرشتہ صفتی پیدا کرنے کی کوشش میں اس کے بچپن کو بے رنگ بے کیف کیا جاتا ہے       جوں جوں وہ بڑا ہوتا ہے اس کی ن